Fi Zilal al-Quran

Multiple Ayahs

Tags

Download Links

Fi Zilal al-Quran tafsir for Surah Al-Muzzammil — Ayah 4

یایھا المزمل (1:73) قم ........(2:73) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے کھڑے ہوجاؤ ........“ آسمانوں کی پکار ، اللہ اور کبیر اور متعال کا حکم ” تم “ کھڑے ہوجاؤ۔ اس عظیم کام کے لئے کھڑے ہوجاؤ جو ایک عرصہ سے تمہارے انتظار میں ہے۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے اور یہ تمہارے لئے ہے۔ اٹھو اور اس راہ میں جدوجہد کرو۔ ان تھک جدوجہد کرو ، اٹھو نیند اور آرام کا وقت اب گیا۔ تیاریاں کرو اس عظیم جدوجہد اور اس چومکھی لڑائی کے لئے ۔

یہ ایک عظیم حکم ہے ، ایک خوفناک حکم ہے۔ نبی ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ گرم ونرم بستر کو چھوڑ دو ۔ آرام دہ اور پر سکون گھر کو چھوڑ دو ۔ غرض اس حکم کے ذریعہ آپ کو ایک عظیم کشمکش اور عظیم جدوجہد کے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور پھر یہ کشمکش خشکیوں میں ، سمندروں اور انسانوں کی عملی زندگی میں اور انسانی ضمیر میں ہر جگہ برپا ہوتی ہے۔

جو شخص صرف اپنے لئے زندگی بسر کرتا ہے بعض اوقات وہ بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا ہے ، لیکن وہ نہایت صغیر و حقیر زندگی بسر کرتا ہے اور ایک معمولی انسان کی طرح مرتا ہے۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو بڑی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے آدمی کے لئے سونا ممکن ہی نہیں رہتا ، اسے آرام نصیب ہی نہیں ہوتا ، اسے گرم بستر کم ہی نصیب ہوتے ہیں ، اسے عیش و عشرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہتا۔ اسے سازو سامان فراہم کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ حضور اکرم ﷺ نے حقیقت کو پالیا تھا ، اس لئے آپ نے حضرت خدیجہ ؓ سے فرمایا جبکہ وہ آپ ﷺ کو مطمئن کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ سو جائیں۔ ” خدیجہ ........ سونے کا زمانہ تو گیا “۔ ہاں وہ دور چلا گیا۔ اب تو جاگنے کا دور ہے ، مسلسل بیدار رہنے کا زمانہ ہے۔ اب تو جدوجہد ہے یا جہاد ہے۔ اور طویل مشقتیں ہیں۔

یایھا المزل (1)........ قلیلا (2) نصفہ ............ قلیلا (3) اوزد ........ .... ترتیلا (4) (73:1 تا 4) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم ، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلو ، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو ، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو “۔

یہ ایک عظیم مہم کے لئے منجانب اللہ تربیت تھی اور اس تربیت میں ایسے ذرائع استعمال کیے گئے جن کی کامیابی کی ضمانت من جانب اللہ دی گئی تھی۔ قیام اللیل ، جس کی زیادہ سے زیادہ حد نصف رات یا دوتہائی رات سے کم یا ایک تہائی ہے۔ اس میں صرف ترتیل قرآن اور نماز ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن کا مطلب ہے قرآن کو تجوید کے ساتھ قرآن کے اصولوں کے مطابق پڑھنا ، جلدی جلدی بھی نہ ہو اور محض گانے بجانے کا انداز بھی نہ ہو۔

نبی ﷺ سے صحیح روایات وارد ہیں کہ آپ نے قیام اللیل کے دوران گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھا تھا لیکن ان گیارہ رکعات میں رات کے دو تہائی حصے سے قدرے کم وقت گزارتے تھے اور آپ قرآن مجید کو خوب رک رک تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے۔

امام احمد نے اپنی سند میں روایت کی ہے ، یحییٰ ابن سعید سے (یہابن عروبہ ہیں) انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے زرارہ ابن اوفی سے ، انہوں نے سعید ابن ہشام سے کہ وہ حضرت ابن عباس کے پاس آئے اور ان سے وتروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمام اہل زمین سے حضور ﷺ کے وتروں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے ؟ فرمایا عائشہ ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو۔ اور پوچھ کر ان کا جو جواب ہو ، وہ مجھے بھی بتا دو ۔ سعید ابن ہشام کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے ام المومنین۔ مجھے بتائیے کہ حضور ﷺ کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا پڑھتا ہوں۔ انہوں نے کہا بس رسول اللہ کا اخلاق قرآن تھا۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ حضور ﷺ کے قیام اللیل کے بارے میں پوچھوں تو میں نے کہا ام المومنین رسول اللہ قیام اللیل کس طرح فرماتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم سورة المزمل نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا ہاں پڑھتا ہوں۔ اللہ نے اس سورت کے پہلے حصے میں قیام اللیل فرض فرمایا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھی ایک سال تک قیام اللیل پر عمل پیرا رہے۔ یہاں تک کہ ان کے پاؤں پھول گئے اور اللہ نے اس کا اختتام آسمانوں میں بارہ مہینے روکے رکھا۔ اس کے بعد اس سورت کے آخری حصے میں تخفیف نازل فرمائی ، اس کے بعد قیام اللیل نفلی ہوگیا جبکہ پہلے فرض تھا۔ میں نے پھر ارادہ کرلیا کہ اٹھ کر چلا جاؤں تو مجھے حضور ﷺ کے وتر کے بارے میں خیال آگیا۔ میں نے پوچھا ام المومنین مجھے حضور ﷺ کے وتر کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار کرتے تھے۔ تو اللہ رات کو آپ کو اٹھاتا تھا ، جس وقت اللہ اٹھانا چاہتا۔ آپ پہلے مسواک کرتے ، پھر وضو فرماتے ، پھر آپ آٹھ رکعات پڑھتے اور ان میں نہ بیٹھتے ، صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے۔ آپ بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ، دعا کرتے ، پھر سلام پھیرے بغیر آٹھویں رکعت کے بعد اٹھتے تاکہ نویں رکعت پڑھیں۔ پھر بیٹھتے اور اللہ وحدہ کو یاد کرتے ، پھر دعا کرتے اور پھر سلام پھیرتے اور ہم سلام پھیرنے کی آواز سنتے۔ اس کے بعد آپ بیٹھ کر دو رکعات پڑھتے۔ یہ سلام پھیرنے کے بعد پڑھنے بیٹھتے۔ یہ گیارہ رکعات ہوگئے۔ جب حضور ﷺ معمر ہوگئے اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہوگیا تو ساتویں رکعت وتر ہوتی۔ پھر ساتویں کے بعد دو رکعات بیٹھ کر پڑھتے۔ اس طرح نوررکعتیں ہوتی ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کی یہ عادت تھی کہ آپ جو نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اس پر مداومت کریں اور جب کبھی حضور ﷺ جاگ نہ سکتے ، یا کسی درد یا بیماری کی وجہ سے رات کو نہ اٹھتے تو دن کو بارہ رکعات ادا فرماتے۔ اور مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ رسول خدا نے ایک ہی رات میں تمام قرآن مجید کو پڑھ کر ختم کیا اور یہ بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ ماسوائے رمضان کے آپ نے کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ (امام مسلم نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے ، دیکھئے ، زادالمعاد ، ابن قیم مفصلا) رسول اللہ ﷺ کی یہ تربیت اس لئے کی جارہی تھی کہ ایک بھاری ذمہ داری آپ کے سپرد کی جانے والی تھی۔