اے لپٹنے والے کپڑے میں!(1) قیام کیجیے رات میں مگر تھوڑا سا(2)( یعنی ) نصف (حصہ) رات کا یا کم کیجیے اس سے تھوڑا سا(3) یا زیادہ کیجیے اس پر اور پڑھیے قرآن ٹھہر ٹھہر کر(4)یقیناً عنقریب ہم ڈالیں گے آپ پر ایک بات بہت بھاری(5) بلاشبہ اٹھنا رات کا یہ زیادہ سخت ہے (نفس کے) کچلنے میں اور زیادہ درست رکھنے والا ہے بات کو(6) بلاشبہ آپ کے لیے دن میں مصروفیت ہے بہت(7) اور یاد کیجیے نام اپنے رب کا اور (سب سے کٹ کر) متوجہ ہو جایے اس کی طرف یکسو ہو کر(8)(وہ) رب ہے مشرق و مغرب کا، نہیں کوئی معبود سوائے اس کےسو بنا لیجیے اس کو (اپنا ) کار ساز(9) اورصبر کیجیے ان باتوں پر جو وہ کہتے ہیں اور چھوڑ دیجیے انھیں چھوڑ دینا اچھے طریقے سے (10) اور چھوڑ دیجیے مجھے اور تکذیب کرنے والے آسودہ حال لوگوں کو اور مہلت دیجیے انھیں تھوڑی سی (11)
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
[5-1]﴿ الۡمُزَّمِّلُ﴾ کا معنی بھی ﴿الۡمُدَّثِّرُ﴾ کی طرح کپڑوں میں لپٹنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو اپنی رسالت کے ذریعے سے اکرام بخشا اور حضرت جبریلu کو آپ کی طرف بھیج کر وحی نازل کرنے کی ابتدا کی تو اس وقت آپ اس وصف سے موصوف تھے۔ آپ نے ایک ایسا معاملہ دیکھا کہ اس جیسا معاملہ آپ نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس پر رسولوں کے سوا کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔آپ کے پاس جبریل آئے اور کہا ’’پڑھیے!‘‘ آپ نے فرمایا: ’’میں پڑھ نہیں سکتا‘‘ جبریل نے آپ کو خوب بھینچا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، جبریل آپ کو بار بار پڑھنے کی مشق کرواتے رہے تو بالآخر رسول اللہ ﷺ نے پڑھا، یہ وحی و تنزیل کا پہلا موقع اور ایک نیا تجربہ تھا، اس سے آپ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی، آپ اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لائے تو آپ پر کپکپی طاری تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثبات سے بہرہ ور کیا اور آپ پر پے در پے وحی نازل ہوئی حتیٰ کہ آپ اس مقام پر پہنچ گئے جہاں کوئی رسول نہیں پہنچ سکا۔ (سُبْحَانَ اللہ!) وحی کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مابین کتنا بڑا تفاوت ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وصف کے ساتھ مخاطب فرمایا جو آپ میں ابتدا کے وقت پایا گیا۔اللہ تعالیٰ نے یہاں آپ کو ان عبادات کا حکم دیا جو آپ سے متعلق تھیں، پھر آپ کو اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ اس کے حکم کو کھلم کھلا بیان کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کا اعلان کر دیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو افضل ترین عبادت، نماز کو موکد ترین اور بہترین وقت پر ادا کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے تہجد کی نماز۔یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو تمام رات قیام کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا :﴿ قُمِ الَّيۡلَ اِلَّا قَلِيۡلًا﴾ ’’رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی رات۔‘‘پھر اس کا اندازہ مقرر کر دیا، چنانچہ فرمایا:﴿نِّصۡفَهٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡهُ﴾ نصف رات یا نصف میں سے ﴿قَلِيۡلًا﴾ کچھ کم کر دیجیے، ایک تہائی کے لگ بھگ ہو ﴿اَوۡ زِدۡ عَلَيۡهِ﴾ یا نصف سے کچھ زیادہ، یعنی دو تہائی رات کے لگ بھگ ہو۔ ﴿وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِيۡلًا﴾ ’’اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘ کیونکہ ترتیلِ قرآن سے تدبر اور تفکر حاصل ہوتا ہے، اس سے دلوں میں تحریک پیدا ہوتی ہے، اس کی آیات کے ساتھ تعبُّد حاصل ہوتا ہے اور اس پر عمل کے لیے مکمل استعداد اور آمادگی پیدا ہوتی ہے۔کیونکہ فرمایا:﴿اِنَّا سَنُلۡقِيۡ عَلَيۡكَ قَوۡلًا ثَقِيۡلًا﴾ یعنی ہم آپ کی طرف یہ بھاری قرآن وحی کریں گے، یعنی وہ معانئ عظیمہ اور اوصاف جلیلہ کا حامل ہے۔ قرآن، جس کا وصف یہ ہو، اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے لیے تیاری کی جائے، اس کو ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور جن مضامین پر مشتمل ہے ان میں غورو فکر کیا جائے۔
[6] پھر اللہ تعالیٰ نے رات کے قیام کے حکم کی حکمت بیان کی ہے، چنانچہ فرمایا:﴿اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيۡلِ﴾ یعنی رات کو سو کر اٹھنے کے بعد نماز پڑھنا ﴿هِيَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّاَقۡوَمُ قِيۡلًا﴾ نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن کے مقصد کے حصول کے زیادہ قریب ہے۔ قلب و لسان اس سے مطابقت رکھتے ہیں، اس وقت مشاغل کم ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ پڑھتا ہے اس کا فہم حاصل ہوتا ہے اور اس کا معاملہ درست ہو جاتا ہے۔
[7] یہ دن کے اوقات کے برعکس ہے کیونکہ دن کے اوقات میں یہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبۡحًا طَوِيۡلًا﴾ ’’دن کے وقت آپ کو اور بہت مشاغل ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی اپنی حوائج اور معاشی ضروریات کے لیے آپ کو بار بار آنا جانا پڑتا ہے جو قلب کے مشغول ہونے اور مکمل طور پر فارغ نہ ہونے کا موجب بنتا ہے۔
[8]﴿وَاذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ﴾ ’’اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو۔‘‘ یہ ذکر کی تمام انواع کو شامل ہے ﴿ وَتَبَتَّلۡ اِلَيۡهِ﴾ ’’اور سب سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجائیے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی طرف انابت، قلب کے خلائق سے علیحدہ اور لا تعلق ہونے، اللہ تعالیٰ کی محبت اور ان اوصاف سے متصف ہونے کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کے مقرب بناتے ہیں اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں۔
[9]﴿رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَالۡمَغۡرِبِ ﴾ یہ اسم جنس ہے جو تمام مشارق و مغارب کو شامل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مشارق و مغارب، ان کے اندر جو انوار اور عالم علوی اور عالم سفلی کے لیے جو مصالح ہیں، سب کا رب ،ان کا خالق اور مدبر ہے۔ ﴿لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ اس بالا و بلند تر ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو محبت و تعظیم اور اجلال و تکریم سے مختص کیا جائے۔ بنابریں فرمایا:﴿ فَاتَّؔخِذۡهُ وَؔكِيۡلًا﴾ پس اسے اپنے تمام امور کی تدبیر کرنے والا اور محافظ بنا۔
[10] جب اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر نماز اور عام طور پر ذکر الٰہی کا حکم دیا ...جس سے بندۂ مومن میں بھاری بوجھ اٹھانے اور پر مشقت اعمال بجا لانے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان باتوں پر صبر کرنے کا حکم دیا جو آپ کے معاندین آپ کو کہتے ہیں اور آپ کو اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اس پر سب و شتم کرتے ہیں، نیز یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں کوئی روکنے والا آپ کی راہ کھوٹی کر سکے نہ کوئی آپ کو واپس لوٹا سکے اور یہ کہ آپ بھلے طریقے سے ان سے کنارہ کش ہو جائیں اور یہ کنارہ کشی وہاں ہے جہاں مصلحت کنارہ کشی کا تقاضا کرتی ہے جس میں کوئی اذیت نہ ہو بلکہ ان کی تکلیف دہ باتوں سے اعراض کرتے ہوئے، ان سے کنارہ کشی کا معاملہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو احسن ہو۔
[11] فرمایا: ﴿وَذَرۡنِيۡ وَالۡمُكَذِّبِيۡنَ۠﴾ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجیے، میں ان سے انتقام لوں گا، میں نے اگرچہ ان کو مہلت دی ہے مگر میں ان کو مہمل نہیں چھوڑوں گا ﴿ اُولِي النَّعۡمَةِ﴾یعنی نعمتوں سے بہرہ مند اور دولت مند لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزق سے فراخی عطا کی اور اپنے فضل سے ان کو نوازا تو انھوں نے سرکشی کا رویہ اختیار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَيَطۡغٰۤىۙ۰۰ اَنۡ رَّاٰهُ اسۡتَغۡنٰى﴾(العلق96؍6-7) ’’ہرگز نہیں، انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کی وعید سنائی جو اس کے پاس ہے ، چنانچہ فرمایا: