’’ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ مفہوم پر دھیان دیتے ہوئے پڑھو۔ جب آدمی ایسا کرے تو قاری اور قرآن کے درمیان ایک دو طرفہ عمل شروع ہوجاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ایک الٰہی خطاب ہوتا ہے اور اس کا دل ہر آیت پر اس خطاب کا جواب دیتا چلا جاتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ کی بڑائی کا ذکر آتا ہے تو قاری کا پورا وجود اس کی بڑائی کے احساس سے دب جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کے احسانات بتائے جاتے ہیں تو اس کو سوچ کر قاری کا دل خدا کے شکر سے بھر جاتا ہے۔ جب قرآن میں خدا کی پکڑ کا بیان ہوتا ہے تو قاری اس کو پڑھ کر کا نپ اٹھتا ہے۔ جب قرآن میں کوئی حکم بتایا جاتا ہے تو قاری کے اندر یہ جذبه مستحکم ہوتا ہے کہ وہ اس حکم کو اختیار کر کے اپنے رب کا فرماں بردار بنے۔
’’بھاری قول‘‘سے مراد انذار کا وہ حکم ہے جو اگلی سوره المدثرآيت 3میں آ رہا ہے (قُمْ فَأَنْذِرْ)۔ یعنی آخرت کے مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کردے۔ یہ کام بلاشبہ اس دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس کے لیے داعی کو بے آمیز حق پر کھڑا ہونا پڑتا ہے، خواہ وہ تمام لوگوں کے درمیان اجنبی بن جائے۔ اس کو لوگوں کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کے اور مخاطبین کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ آخر وقت تک باقی رہے۔ اس کو یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو صبر اور اعراض کا پابند کرنا پڑتا ہے۔ تاکہ کسی بھی حال میں اس کی داعیانہ حیثیت مجروح نہ ہونے پائے۔