وان .................................... صعد
اللہ فرماتا ہے کہ جن ہمارے متعلق یہ کہتے تھے کہ اگر لوگ یا ظالم اور کافر لوگ راہ راست پر آجائیں تو ہم ان کو خوب سیراب کریں۔ اور یوں ان کے رزق میں اضافہ ہو ، تاکہ ” ہم “ ان کو آزمائیں کہ شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔
طرز ادا میں یہ تبدیلی کہ جنوں کے قول کو نقل کرنے کے بجائے جنوں کے قول کا مفوم قرآنی الفاظ میں ادا کیا گیا اور جنوں کی بات تو اس طرح قرآن کریم میں کئی جگہ آتی ہے اور اس سے کلام میں تاکید مزید پیدا کرنا مطلوب ہوتا ہے اور قاری اس طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے۔
توجہ مبذول کرانے کے اس نوٹ میں کئی حقائق ہیں ، جن کے مطابق ایک مومن کا ایمان تشکیل پاتا ہے اور ان کے مطابق وہ معاملات کے فیصلے کرتا ہے اور واقعات کے باہم روابط متعین کرتا ہے۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ اقوام اور سوسائٹیاں اور معاشرے کس طرح صراط مستقیم پر قائم رہ کر اللہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اور پھر وصول الی اللہ اور پیداوار میں اضافہ اور اور خوشحالی کے حصول کے درمیان ربط کیا ہے جبکہ خوشحالی کا سبب اول آبپاشی کا انتظام اور کثرت ہے جہاں تک زندگی کا تعلق ہے وہ تو پانی سے تشکیل پاتی ہے۔ آج ہمارے صنعتی دور میں بھی خوشحالی کا دارومدار بہرحال پانی اور سیرابی پر ہے۔ اگرچہ صرف زراعت پر زندگی موقوف نہیں رہی ہے۔ لیکن پھر بھی تعمیر و ترقی کا مدار پانی ہی پر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ راہ راست پر قائم رہے تو نہ صرف وہ ترقی یافتہ اور خوش حال ہوجاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کو زمین پر اقتدار اعلیٰ بھی حاصل ہوتا ہے ، امت عربیہ۔
اس کی واضح مثال ہے کہ ایام جاہلیت میں جزیرة العرب کے درمیان یہ نہایت پسماندہ زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن جب وہ راہ راست پر چل پڑے تو ان کے لئے ایسی زمینوں کے دروازے کھل گئے جہاں پانی بڑی مقدار میں مہیا تھا اور جب یہی عرب بدعمل ہوگئے اور انہوں نے راہ راست سے انحراف اختیار کیا تو وہ دوبارہ پسماندہ ہوگئے اور اس لئے وہ اس وقت بدحال ہیں۔ اور یہ اس وقت تک بدحال رہیں گے جب تک یہ دوبارہ راہ راست پر نہیں آجاتے۔ اور جب بھی یہ آئے ان پر خوشحالی آجائے گی اور ان کو زمین میں تمکن حاصل ہوگا۔
اگر ایسی اقوام کہیں موجود ہوں جو راہ راست پر نہ ہوں اور پھر بھی وہ باد سائل ہوں ، تو اللہ ان پر دوسرے عذاب مسلط کردے گا اور وہ کئی آفات وبلیات سے دوچار ہوں گی۔ ایسی اقوام انسانیت ، اقدار ، انسانی شرف اور کرامت کے اعتبار سے گر جائیں گی۔ یوں ان کی یہ خوشحالی اور مادی ترقی بےمعنی ہوکر رہ جائے گی۔ اور ان کی زندگی تلخ ، اور پر مشقت ہوگی۔ ایسی اقوام انسانی شرف سے محروم ہوں گی۔ اور ان کی زندگی میں کوئی اطمینان نہ ہوگا۔ اس مضمون کی تشریحات ہم سورة نوح میں کر آئے ہیں۔
اور اس نوٹ سے جو دوسری حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خوشحالی اور تمکین فی الارض بھی دراصل ایک ابتلا ہے ، ایک آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اچھے اور برے حالات کے ذریعہ آزماتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوشحالی میں اللہ کا شکر ادا کرنا بہت مشکل کام ہے بہ نسبت اس کے کہ کوئی بدحالی پر صبر کرے ، جبکہ بادی النظر میں انسان کی توجہ ایک طرف ہوجاتی ہے ، اس کی مدافعانہ قوتیں مجتمع ہوجاتی ہیں۔ اور وہ اپنی پوری قوتوں کو صورت حالات کی مدافعت میں لگا دیتا ہے۔ مثلاً وہ اللہ کو یاد کرتا ہے ، اللہ سے دعا کرتا ہے ، اور اللہ سے ان مشکل حالات میں مدد طلب کرتا ہے جبکہ تمام دنیاوی سہارے ختم ہوتے ہیں تو انسان اللہ کا سہارا لیتا ہے۔ رہی خوشحالی تو وہ انسان کو غافل کردیتی ہے ، انسان فضولیات میں مشغول ہوجاتا ہے۔ انسانی اعضا سست ہوجاتے ہیں ، قوت مدافعت سو جاتی ہے اور انسان کے لئے غفلت اور بےراہ روی کے اسباب مہیا ہوجاتے ہیں۔ اور انسان بڑی سہولت سے شیطان کے پھندے میں پھنس جاتا ہے۔
جب انسان پر خوشحالی اور نعمتوں کی کثرت کی آزمائش آجائے تو اسے ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مال و دولت بسا اوقات انسان کو سرکشی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ انسان اللہ کا شکر نہیں کرتا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے بخیل ہوجاتا ہے اور دنیاوی اخراجات میں اسراف کرنے لگتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں زندگی کے توازن کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح اقتدار کی قوت بھی اکثر اوقات انسان کو اندھا کردیتی ہے ، وہ ظالم اور سرکش ہوجاتا ہے ، وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے ، اور حدود سے آگے بڑھتا ہے۔ لوگوں پر دست درازی کے بعد ایسا شخص پھر اللہ کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے۔ اسی طرح مال و جمال کے فتنے انسان کو کبروغرور اور بےراہ روی اور بدعملی اور بدکرداری اور فسق وفجور میں مبتلا کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ذکی اور ذہین ہے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے اور برخود غلط ہوجاتا ہے اور وہ اعلیٰ قدروں کو پامال کرتا ہے۔ غرض ہر نعمت آزمائش ہے الایہ کہ کوئی بروقت اللہ کو یاد کرے اور اللہ کی پناہ طلب کرے۔
تیسری حقیقت یہ ہے کہ ذکر الٰہی سے اعراض کے نتیجے میں ایک طرف انسان خوشحالی میں آزمایا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ عذاب اخروی میں بھی مبتلا ہوگا۔ قرآن کریم اس کی تصریح کرتا ہے۔
یسل کہ عذابا صعدا (27 : 71) ” اس کا رب اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا “۔ یعنی یہ عذاب بہت شدید ہوگا ، جس طرح ایک آدمی چڑھائی چڑھ رہا ہو تو وہ مشکل محسوس کرتا ہے۔ جوں جوں چڑھتا ہے اس کے لئے رفتار مشکل ہوتی جاتی ہے۔ قرآن کریم نے کئی جگہ شدت عذاب کی تعبیر چڑھائی چڑھنے کے ساتھ کی ہے۔ ایک دوسری جگہ ہے۔
فمن یرد ................................ السماء (6 : 521) ” پس جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے۔ اور ایسا بھینچتا ہے کہ اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا وہ آسمانوں کی طرف چڑھ رہا ہے “۔ اور دوسری جگہ ہے۔
سارھقہ صعود (المدثر۔ 71) ” میں عنقریب اسے ایک کٹھن چڑھائی چڑھاﺅں گا “۔
یہ تیسری آیت ہوسکتی ہے کہ یہ جنوں کے قول کی حکایت ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ کا کلام ہو۔