الا من ................ رصدا (72) لیعلم ................ شیء عددا (27 : 82) ” سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لئے) پسند کرلیا ہو ، تو اس کے ٓگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچادیئے ، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے “۔ پس وہ رسول جن کو وہ اپنی دعوت کے پہنچانے کے لئے چن لیتا ہے ان کو اللہ اپنے عالم غیب میں سے کچھ پہلو بتا دیتا ہے اور وہ پہلو وہی ہے جو وحی پر مشتمل ہے۔ یعنی وحی کے موضوعات ، اس کا طریقہ یعنی وہ فرشتے ، جو وحی اٹھا کر لاتے ہیں اور وہ سرچشمہ جس سے وہ لاتے ہیں یعنی لوح محفوظ اور اس کا نظام حفاظت جس کا ذکر ہو اور وہ دوسرے امور جن کا تعلق رسول کی رسالت اور دعوت کے ساتھ ہے۔ یہ تمام امور غیبی امور ہیں اور انسانوں میں سے کوئی ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ (لہٰذا رسول کو جو غیب دیا جاتا ہے وہ وحی الٰہی سے متعلق ہوتا ہے)
اور اس کے ساتھ ساتھ رسولوں کے ارد گرد اللہ کے نگراں مقرر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ نگران ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کے کام کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ یہ نگران ان کو شیطان کے وسوسوں سے بھی بچاتے ہیں ، شیطانوں کی مداخلتوں سے بھی بچاتے ہیں ، اور شیطان کی خواہشات اور تمناﺅں سے بھی بچاتے ہیں۔ یہ ان کو ان بشری کمزوریوں سے بھی بچاتے ہیں کہ وہ رسالت و دعوت میں کوئی سستی نہ کریں ، کسی بات کو بھلا نہ دیں ، راست سے منحرف نہ ہوجائیں اور ان کو دوسرے بشری نقائص اور ناتوانیوں سے بچاتے ہیں۔
لیکن انبیاء کے اس حفاظتی نظام میں ایک قسم کا خوف اور حساسیت پائی جاتی ہے۔ ذرا انداز بیان پر غور کریں۔
فانہ یسلک ................ رصد (27 : 72) ” تو اس کے آگے اور پیچھے دو محافظ لگا دیتا ہے “۔ تو ہر رسول کی مسلسل نگرانی ہوا کرتی ہے کہ آیا وہ اپنا فریضہ ادا کررہا ہے یا نہیں۔
لیعلم ................ ربھم (27 : 82) ” تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام پہنچادیئے “۔ اللہ تو پہلے سے جانتا ہے لیکن اللہ چاہتا ہے کہ ان سے عمل تبلیغ عملاً صادر ہوجائے اور وہ نظر آجائے اور اللہ کا علم اس سے متعلق ہو۔
واحاط بما لدیھم (27 : 82) ” اور وہ ان کے پورے ماحول کو احاطہ کیے ہوئے ہے “۔ ان کے نفوس ، ان کی زندگی جو کچھ بھی ہے اور ان کے ماحول میں جو کچھ بھی ہے اسے اللہ جانتا ہے۔ اللہ کے علم سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی۔
واحصی کل شیء عدادا (27 : 82) ” اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے “۔ نہ صرف یہ کہ جو رسولوں سے متعلق ہے ، بلکہ اس کا احاطہ اور اس کا شمار ہر چیز کو شامل ہے۔ ذرے ذرے کو بھی شامل ہے۔
ذرا اس حالت کا تصور کیجئے !
ایک رسول تبلیغ کررہا ہے اور اس کے آگے پیچھے نگراں لگے ہوئے ہیں۔ یہ محافظ بھی ہیں اور رقیب بھی ہیں اور اللہ رسولوں کے پورے ماحول سے براہ راست رابطہ رکھتا ہے۔ لہٰذا رسول کا فریضہ اور آپ کی سروس ایک لازمی فوجی سروس ہے۔ اور آپ کو یہ فریضہ ادا کرنا ہے۔ رسول اپنا کام کررہا ہے۔ خود مختار نہیں ہے ، نہ وہ کمزوری دکھا سکتا ہے ، نہ اپنی خواہش کی پیروی کرسکتا ہے۔ نہ اپنی پسند کے پیچھے جاسکتا ہے بلکہ ایک نہایت ہی حساس ، سنجیدہ اور سخت ڈیوٹی ہے جس کی نگرانی ہورہی ہے۔ ہر رسول اس بات کو جانتا ہے اور اس طرح اپنا فریضہ ادا کرتا چلا جاتا ہے۔ اور ادھر ادھر دیکھتا بھی نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی سخت نگرانی ہورہی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا ہر فعل اللہ کے علم میں ہے اور برملا ہے۔
یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھ کر ہر شخص کے دل میں رسول سے نہایت گہری ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور ہمدردی کے ساتھ ایک خوف اور دہشت بھی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے کہ دعوت دین کا معاملہ کس قدر حساس ہے۔
اس خوفناک اور مرعوب کن ہدایت پر یہ سورت ختم ہوجاتی ہے ، جس کا آغاز بھی اسی قسم کے ماحول سے ہوا تھا ، جسے جنوں کے طویل اقتباس سے شروع کیا گیا تھا اور جس میں جنوں کے کپکپادینے والے واقعات بیان ہوئے تھے۔
یہ سورت جس کی کل آیا 12 سے زیادہ نہیں ہیں ، اسلامی نظریہ حیات سے متعلق بیشمار حقائق کو طے کرتی ہے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقائد کا ایک نہایت ہی متوازن اور سیدھا راستہ تجویز کرتی ہے جس کے اندر کوئی غلو نہیں ہے اور نہ افراط وتفریط ہے۔ یہ سورت عالم کے بارے میں بھی نہایت معتدل لائن دیتی ہے۔ انسانوں کے سامنے عالم غیب کے دروازے بھی بند نہیں کرتی اور نہ انسانوں کو عالم غیب کے بارے میں افسانے اور خرافات گھڑنے کی اجازت دیتی ہے۔ اور جنوں کا یہ تبصرہ اس سورت میں نہایت ہی قیمتی ہے۔
انا سمعنا ........ عجبا (27 : 1) یھدی الی ................ بہ (27 : 2) ” ہم نے قرآن سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے “۔