وانا لمسنا ............................ ربھم رشدا
یہ واقعات جو جنوں کے ذریعہ قرآن نے نقل کیے ہیں ، بتاتے ہیں کہ اس آخری رسالت سے قبل کے زمانے میں ، جس میں رسول نہ تھا یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کے دور میں ، جنوں کا یہ مشغلہ تھا کہ وہ عالم بالا کی طرف جاتے تھے اور عالم بالا میں اس زمین اور کائنات کے بارے میں جو احکام صادر ہوئے تھے یا فرشتوں کے درمیان زیر بحث آتے تھے ، مثلاً اللہ تعالیٰ فرشتوں کو جو احکام برائے نفاذ صادر کرتا تھا ، یہ جن عالم بالا میں بعض مقامات تک پہنچ کر گن سن لے لیتے تھے اور پھر ان سچی معلومات کے ساتھ بہت سی غلط معلومات جمع کرکے ، یہ جن دنیا میں کاہنوں ، قیافہ دانوں اور دوسرے مذہبی رہنماﺅں کو دیتے اور یہ لوگ ان حقیقی معلومات کو شیطانوں کے آمیزے کے ساتھ مزید اپنے مفاد کی چیزیں ملا کر لوگوں میں پھیلاتے ، ان کو گمراہ کرتے اور اس طرح شیطانی منصوبہ چلتا رہتا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور حضور ﷺ سے قبل یہ نظام کس طرح چلتا تھا ، اس کی تفصیلات قرآن نے نہیں دی ہیں اور نہ یہ تفصیلات جاننے کی کوئی ضرورت ہے۔
چناچہ جنوں کا یہ گروہ کہتا ہے کہ اب عالم بالا سے یہ گن سن ممکن نہیں رہی ہے۔ اب جب وہ یہ کوشش کرتے ہیں جسے وہ ” لمس سمائ “ سے تعبیر کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ ہر طرف شدید پہرے لگے ہوئے ہیں اور جو جن بھی ایک حد سے اوپر جاتا ہے آگے سے شہاب ثاقب کی بمباری ہوتی ہے۔ جو بھی ایسی کوشش کرتا ہے شہاب گر کر اسے ختم کردیتا ہے۔ وہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تو غیب نہیں جانتے کہ ان نئے انتظامات کے مقاصد کیا ہیں اور اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے :