اگر یہ روایت صحیح ہو کہ اس سورت کی ابتدائی آیات آغاز بعثت میں نازل ہوئیں تو پھر یہ دوسرا حصہ یقینا قدرے بعد کے زمانے میں نازل ہوا ، جبکہ حضور ﷺ نے علانیہ دعوت کا آغاز کردیا تھا اور مکذبین اور تحریک کے کارکنوں پر دست درازیاں کرنے والے میدان میں آگئے تھے اور یہ لوگ رسول اللہ اور اہل اسلام کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ اور اگر دوسری روایت ہو تو پھر پہلا حصہ بھی اس وقت نازل ہوا جب حضور اکرم ﷺ کو مشرکین اور مکذبین نے دیکھ دینا شروع کردیا اور یہ لوگ دعوت اسلامی کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم تھے۔
بہرحال جو صورت بھی ہو ، قیام اللیل اور ذکر وفکر کے ساتھ صبر کی تلقین کرنا (اور یہ دونوں باتیں بالعموم جمع ہوتی ہیں) تحریک اسلامی کے لئے ایک بہترین زادراہ ہے۔ اور اس راہ کی مشکلات کو صرف انہی ہتھیاروں اور تدابیر کے ذریعے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ راہ بہت طویل اور صبر آزما ہے۔ خواہ انسانی افکار کے میدان کی کشمکش ہو یا میدان جنگ کی ضرب وحرب ہو۔ دونوں مشکل کام ہیں۔ دونوں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
واصبر ................ یقولون (73:10) ” جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو “۔ کیونکہ یہ لوگ اشتعال انگیز کاروائیاں کرتے تھے اور ناقابل برداشت حد تک ہٹ دھرمی کرتے تھے۔
واھجر ............ جمیلا (73:10) ” اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ “۔ نہ کوئی عتاب ہو اور نہ آپ ان پر غصہ ہوں ، نہ بائیکاٹ ہو اور نہ دشمنی ہو۔ یہ تھا منصوبہ دعوت اسلامی کا پوری مکی زندگی میں۔ خصوصاً مکہ کے ابتدائی زمانے میں۔ محض قلب وضمیر اور دل و دماغ کو اپیل کی جاتی تھی۔ نہایت نرمی سے تبلیغ کی جانی تھی اور صرف کھول کھول کر حقائق بیان کیے جاتے تھے۔
اور ان لوگوں کی دست درازیوں اور تکذیب کا دفاع ذکر الٰہی کے بعد صبر جمیل ہی سے کیا جاسکتا تھا ، اللہ نے ہر رسول کو صبر کا حکم دیا ہے ، اور بار بار دیا ہے۔ پھر اللہ نے ہر رسول کے ساتھیوں اور بعد میں آنے والے مومنین کو بھی صبر کا حکم دیا ہے۔ رسولوں کے زمانوں کے بعد میں بھی جس شخص نے دعوت اسلامی کا بیڑا اٹھایا ہے ، اس کا زادہ راہ صبر ہی رہا ہے۔ اس کا اسلحہ اور سازو سامان صبر ہی رہا ہے۔ صبر بہترین ڈھال اور بہترین اسلحہ ہے۔ صبر ہی بہترین قلعہ اور پناہ گاہ ہے۔ یہ نفس اور اس کی خواہشات کے ساتھ جہاد ہے۔ یہ نفس کی بےراہ رویوں اور خواہشات کے خلاف جہاد ہے۔ یہ نفس کی سرکشی ، جلد بازی اور مایوسی کے خلاف بھی ایک جدوجہد ہے۔ اور دعوت اسلامی کے دشمنوں ، ان کی ریشہ دورانیوں اور اذیتوں کے خلاف بہترین دفاع اور ہتھیار ہے۔ اور یہ بالعموم نفس انسانی کے خلاف بھی ہتھیا رہے۔ یہ نفس بالعموم دعوت اسلامی کی تکالیف اور ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی تدابیر کرتا ہے۔ نفس انسانی مختلف رنگوں اور لباسوں میں اس دعوت کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور سیدھی راہ پر چلنا نہیں چاہتا۔ اور داعی کے لئے اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ ان تمام باتوں پر صبر کرے۔ اور ذکر وصبر دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ہر موقعہ پر جہاں صبر کرنا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی یاد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
اور اے پیغمبر یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر صبر جمیل اختیار کرو اور ان کو نہایت ہی شریفانہ انداز میں چھوڑ دو ، ان مکذبین کے لئے مجھے چھوڑدو۔ میں ان کا انتظام خود کرلوں گا۔