ان ربک ........................ غفور رحیم
یہ ایک خوبصورت رعایت ہے۔ اس پر مشقت ، داماندہ اور تھکے ہارے شخص کے لئے خوشخبری کہ چلو چھٹی مل گئی۔ اللہ کی طرف سے نبی اور مومنین کے لئے نہایت ہی مناسب تخفیف اور چھوٹ کا اعلان ہے۔ اللہ کو معلوم تھا کہ وہ مخلص ہیں اور وہ نہایت تندہی سے احکام بجا لارہے ہیں۔ رات کے طویل قیام کی وجہ سے ان کے پاﺅں پھول گئے ہیں اور رات کا بڑا حصہ تلاوت قرآن اور نماز میں بسرہورہا ہے۔ اللہ کا مقصد یہ نہ تھا کہ قرآن کے ذریعہ لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا جائے بلکہ مقصد یہ تھا کہ جو عظیم ذمہ داری نبی اور مسلمانوں پر عائد ہورہی ہے ، اس کے لئے ان کو تیار کیا جائے۔ اور یہ ذمہ داری چونکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ادا کرنی تھی اس لئے ان کے لئے اس ٹریننگ کا انتظام ضروری تھا۔
یہاں جس انداز میں بات کی گئی ہے ، وہ نہایت ہی اطمینان بخش ہے۔
ان ربک ........................ معک (73:20) ” اے نبی ! تمہارا رب جانتا ہے کہ تم کبھی دوتہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادل میں کھڑے رہتے ہو ، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ بھی “۔ اللہ نے تمہارا قیام اللیل دیکھ لیا ۔ اور تمہارے ساتھیوں کو بھی دیکھ لیا۔ اور اللہ نے تمہاری اس عبادت کو قبول کرلیا ہے۔ اللہ نے جان لیا کہ تمہارے اور ان کے پہلو گرم ونرم بستروں سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ تم لوگوں نے ان نرم بستروں کی پکار کو نہ سنا اور اللہ کی پکار کو سنا۔ اب اللہ تم پر مہربانی فرماتا ہے۔ اور تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر قدرے تخفیف فرماتا ہے۔
واللہ ............ والنھار (73:20) ” اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے “۔ یوں کہ کبھی رات زیادہ لمبی ہوتی ہے اور کبھی دن۔ اور تم اور تمہارے ساتھی رات کی ایک تہائی ، نصف رات یا دوتہائی رات عبادت کرتے رہتے ہو۔ پھر اللہ تمہاری طاقت کی حدود سے بھی واقف ہے۔ اور اللہ کا مقصد تمہیں تھکانا اور عذاب دینا نہیں ہے۔ اللہ تو تمہیں ایک مقصد کے لئے تیار کررہا ہے۔ جب تم تیار ہوگئے تو پھر تخفیف کردیتو تم بھی اپنے نفوس پر تخفیف کرو ، اور اب اس کام پر اس قدر سختی نہ کرو۔
فاقرء ................ القرآن (73:20) ” اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو ، پڑھ لیا کرو “۔ یعنی رات کے وقت نماز میں۔ لیکن اپنے آپ کو مشقت اور تنگی میں نہ ڈالو۔ اور یہاں بعض امور ایسے بھی بتا دیئے جاتے ہیں جن میں مستقبل میں اہل اسلام نے مشغول ہونا تھا اور ان ڈیوٹیوں کے ساتھ قیام اللیل ذرا زیادہ مشکل تھا۔
علم ان ................ مرضی (73:20) ” اسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے “۔ ان پر قیام اللیل کا فریضہ پر مشقت ہوگا۔
واخرون .................... فضل اللہ (73:20) ” کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں “۔ یعنی تلاش معاش میں سفر اور سفر کی مشقتیں۔ کیونکہ معاشی جدوجہد بھی ضروریات زندگی میں سے ہے۔ الہل کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تم دنیا کی زندگی کی ضروریات کے لئے جدوجہد ترک کرو اور رھبان بن جاﺅ۔
واخرون ................ سبیل اللہ (73:20) ” کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں “۔ اللہ کو علم تھا کہ عنقریب وہ ظلم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دے دے گا ، اسلام کے جھنڈے بلند ہوں گے اور باغیوں کا مقابلہ کیا جائے گا۔ لہٰذا اس مقابلے کے لئے اب یہ تخفیف کی جاتی ہے۔ اب بغیر مشقت کے جس قدر ممکن ہو پڑھو۔
فاقرئ .................... منہ (73:20) ” لہٰذا قرآن جس قدر تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو ، پڑھ لو “۔ بغیر مشقت اور تنگی کے۔ اور باقی دینی فرائض پر پوری طرح جم جاﺅ۔
واقیموا ................................ الزکوة (73:20) ” اور نماز پڑھو اور زکوٰة دو “۔ اور اس کے بعد قرض حسن بھی دو ۔
واقرضوا ........................ اعظم اجرا (73:20) ” اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاﺅ گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے “۔ اور اللہ کی طرف اس طرح متوجہ ہوتے جاﺅ کہ استغفار کرتے رہو ، اپنی تقصیرات کی معافی چاہو ، انسان سے قصور سرزد ہوتے ہیں ، وہ خطا کا ارتکاب کرتا ہے۔ اگرچہ وہ کوشش کرے اور درست فعال کرنے کی سعی کرے۔
واستغفروا ................ رحیم (73:20) ” اور اللہ سے مغفرت مانگتے رہو ، بیشک اللہ بڑا غفور ورحیم ہے “۔ یہ رحمت ، شفقت اور تیسیر کی ایک چٹکی ہے اور ایک سال قیام کے بعد اب یہ سہولت نازل ہوتی ہے۔ اللہ نے مسلمانوں پر تخفیف فرمائی ہے۔ اب قیام اللیل نفلی ہوگیا لیکن رسول اللہ ﷺ پھر بھی اپنی روش ہی پر قائم رہے۔ ثلث اللیل سے آپ کا قیام اللیل کبھی کم نہ ہوا۔ یہ اللہ کے ساتھ مناجات تھی۔ رات کی تنہائیوں میں ، دنیا کے شوروشغب سے دور۔ یوں آپ اس مناجات سے زادراہ لیتے رہے۔ اور پوری زندگی میں یہ جدوجہد جاری رہی۔ لیکن سوتے میں بھی آپ کی آنکھیں بندہوجاتیں تو آپ کا دل بیدار ہی رہتا تھا۔ آپ کا قلب مبارک ہر وقت اللہ کو یاد کرتا رہتا تھا۔ آپ ہر وقت سوتے یا جاگتے اللہ کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ غرض آپ دنیا کی تمام آلودگیوں سے علیحدہ ہوکر رب کے ہوگئے تھے۔ اور اس راہ میں جس قدر بوجھ آپ برداشت کرسکتے تھے۔ آپ نے برداشت کیا۔