آیت 10{ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ”اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے“ { وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا۔ } ”اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے۔“ یہ لوگ آپ ﷺ کے لیے شاعر ‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘ لیکن آپ ﷺ ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورة الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ } کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ ہوسکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں۔ اگلے بارہ سال کے دوران مکہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل مکہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپ ﷺ ان کو نظرانداز تو کریں ‘ لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔