Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi

Ayah by Ayah

Tags

Download Links

Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi translation for Surah Al-Muddaththir — Ayah 31

74:31
وَمَا جَعَلۡنَآ أَصۡحَٰبَ ٱلنَّارِ إِلَّا مَلَٰٓئِكَةٗۖ وَمَا جَعَلۡنَا عِدَّتَهُمۡ إِلَّا فِتۡنَةٗ لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ لِيَسۡتَيۡقِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ وَيَزۡدَادَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِيمَٰنٗا وَلَا يَرۡتَابَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡمُؤۡمِنُونَ وَلِيَقُولَ ٱلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٞ وَٱلۡكَٰفِرُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلٗاۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَن يَشَآءُ وَيَهۡدِي مَن يَشَآءُۚ وَمَا يَعۡلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكۡرَىٰ لِلۡبَشَرِ ٣١
ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں،1 اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے،2 تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آجائے3 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے،4 اور اہلِ کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار5 اور کفّار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے۔6 اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے۔7 اور تیرے ربّ کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا8۔۔۔۔ اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیےنہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔9
Footnotes
  • [1] یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آجائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔
  • [2] یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کُرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گردوپیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدا ئی کاکار خانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصّور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔
  • [3] یعنی اس طرح اللہ تعالیؒ اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرمادیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکلا کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ  اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلات ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھیجچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات  ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، ابقرہ،حواشی2۰،19،1۶،1۰۔النساء،حاشیہ173۔الانعام،حواشی9۰،28،17 جلد دوم، یونس،حاشیہ13۔جلد سوم،الکہف،حاشیہ54۔القصص،حاشیہ71)۔
  • [4] اس کے معنی  یہ نہیں ہیں کہ وہ اِسے اللہ کا کلام  تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی۔ بلکہ دراصل  وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید ازعقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔
  • [5] قرآن مجید میں چونکہ بالعموم”دل کی بیماری“سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶72،۶74، اور۶8۰تا۶82 پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں یہ معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ  میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو  اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر  وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گی اہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں  کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔
  • [6] یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہےکہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شکّ و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ  چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفا داری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کےملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، آیت173۔جلد دوم، الانفال، آیت2، حاشیہ 2۔ التوبہ، آیات124۔125۔حاشیہ125۔جلدچہارم،الاحزابِ،آیت22،حاشیہ38۔جلد پنجم، الفتح آیت 4، حاشیہ7)۔
  • [7] بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آجائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل  یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں  یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد 19 ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے 19 فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق ا استہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء  کی شانسے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہےکہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہا یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکح کر انہیں یقین آجائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجِک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا ظارہ ہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو  سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔
  • [8] یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔
  • [9] یعنی اُن کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں۔

Translations are available in both JSON and SQLite database formats. Some translation has footnotes as well, footnotes are embedded in the translation text using sup HTML tag. To support a wide range of applications, including websites, mobile apps, and desktop tools, we provide multiple export formats for translations.

Available export formats:

1. Nested Array Structure

Translations are grouped by Surah. Each Surah is an array containing translations for each Ayah in order. This format export translations as simple text, no formatting, no footnotes.

[
  ["translation of 1:1", "translation of 1:2"], ...
  ["translation of 2:1", "translation of 2:2"]
]

2. Key-Value Structure

Each translation is stored with the Ayah reference (e.g. 1:1) as the key and the translated text as the value. This format also exports translations as simple text, no formatting, no footnotes etc.

{
  "1:1": "translation of 1:1",
  "1:2": "translation of 1:2",
  ...
  "114:6": "translation of 114:6"
}

Translations with Footnotes

Translations with footnotes are available in three more formats:

1. Footnotes as Tags Format

Footnotes are embedded using a <sup> tag with a foot_note attribute. Footnote contents are stored separately under f key.

{
  "88:17": {
    "t": "Do the disbelievers not see how rain clouds are formed <sup foot_note=\"77646\">1</sup>",
    "f": {
      "77646": "The word ibl can mean 'camel' as well as 'rain cloud'..."
    }
  }
}

2. Inline Footnote Format

Footnotes are inserted directly using double square brackets e.g([[this is footnote]])

{
  "88:17": "Do the disbelievers not see how rain clouds are formed [[The word ibl can mean 'camel' as well as 'rain cloud'...]]"
}

3. Text Chunks Format

In chunks export format, text is divided into chunks. Each chunk could be a simple text or an object. Object can be either footnote or a formatting tag. This format is useful for applications can't directly render the HTML tags. Here is an example of Bridges` translation for Surah An-Nas , Ayah 6:

Above translation will be exported in chunks as:

<i class="s">(from the whisperers)</i>among the race of unseen beings<sup foot_note="81506">1</sup>and mankind.”

      [
      {"type":"i","text":"(from the whisperers)"}, // first chunk, should be formatted as italic
      "among the race of unseen beings", //second chunk in simple text
      {"type":"f","f":"81506","text":"1"}, // third chunk is a footnote,
      "and mankind.”"
      ]