Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi

Ayah by Ayah

Tags

Download Links

Tafheem e Qur'an - Syed Abu Ali Maududi translation for Surah Al-Qiyamah — Ayah 2

75:2
وَلَآ أُقۡسِمُ بِٱلنَّفۡسِ ٱللَّوَّامَةِ ٢
اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی،1
Footnotes
  • [1] قرآن مجید میں نفسِ انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے۔ اس کا نام نفس اَتارہ ہے۔ دوسرا نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بُری نیت رکھنے پر نادم ہو تا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔ اس کا نام نفسِ لوّامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑدینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس کا نام نفسِ مطمئنّہ ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اُسے بیان نہیں کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کررہا ہے۔ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کریگا اور  وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر اِن دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے؟ جہاں تک روزِ قیامت کا تعلق ہے، اُس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے۔ پوری کائنات کا نظام اِس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ اِس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔ انسان کی عقل پہلے بھی اِس گمانِ بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تحی کہ یہ ہر آن بدلنے والی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے ، لیکن جتنا جتنا اِس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلاجاتا ہے کہ اِس ہنگامہ ہست وبود کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے ، اور یہ ایسی ہی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں شک کر رہا ہو، خطاب کر کے کہیں کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو ، یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے۔           لیکن روز قیامت کی قَسم صرف اِس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا ۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوبارہ اٹحا یا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا بُرا نتیجہ دیکھے گا ، تو اس کے لیے دوسری قسم نفسِ لوّامہ کی کھائی گئی ہے۔ کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اِس ضمیر میں لازماً بھلائی اور بُرائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے ،اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور بُرائی کا جومعیا ر بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نراحیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے ، وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے  اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے ، اور جس بُرائی کا ارتکاب اُس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتون کو دبا کر خوش بھی ہولے ، تو اس کے بر عکس  صورت میں جبکہ اُسی برائی کا ارتکا ب کسی دوسرے نے اُس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اِس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اِس طرح کے ایک نفسِ لوّامہ کی موجود گی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفسِ لوّامہ زندگی بعدِ موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنےجن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے اُن کی جزا یا سزا اُس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پُورا نہیں ہو سکتا۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی اس سے انکار نہین کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جاءے ہو اُس کی بہت سی بھلائیاں ایسی ہیں جن کے اجر سے وہ لاز ماً محروم رہ جائے گا، اور اس کی بہت سی بُرائیاں ایسی ہیں جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا۔ اس لیے جب تک آدمی اِس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظامِ کائنات میں پیدا ہو گیا ہے، اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں جنم لے  بیٹھا ہے جو بنیا دی طور پر اپنے  پُورے نظام میں اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ، اُس وقت تک وہ حیات بعدِ موت کا انکار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح تنا سُخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اِس مطالبے کا جواب نہیں ہے۔ کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں جنم لیتا چلاجائے تو ہر جنم میں وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سےجزا وسزا کے متقاضی ہوں گے اور اس لامتنا ہی سلسلے میں بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چُک سکے، اُلٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں پُورا ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں انسان کی صرف ایک زندگی ہو، اور پھر پُوری نوعِ انسانی کا خاتمہ ہوجانے کے بعد ایک دوسری زندگی  ہو جس میں انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دے دی جائے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم،الاعراف،حاشیہ3۰)۔  

Translations are available in both JSON and SQLite database formats. Some translation has footnotes as well, footnotes are embedded in the translation text using sup HTML tag. To support a wide range of applications, including websites, mobile apps, and desktop tools, we provide multiple export formats for translations.

Available export formats:

1. Nested Array Structure

Translations are grouped by Surah. Each Surah is an array containing translations for each Ayah in order. This format export translations as simple text, no formatting, no footnotes.

[
  ["translation of 1:1", "translation of 1:2"], ...
  ["translation of 2:1", "translation of 2:2"]
]

2. Key-Value Structure

Each translation is stored with the Ayah reference (e.g. 1:1) as the key and the translated text as the value. This format also exports translations as simple text, no formatting, no footnotes etc.

{
  "1:1": "translation of 1:1",
  "1:2": "translation of 1:2",
  ...
  "114:6": "translation of 114:6"
}

Translations with Footnotes

Translations with footnotes are available in three more formats:

1. Footnotes as Tags Format

Footnotes are embedded using a <sup> tag with a foot_note attribute. Footnote contents are stored separately under f key.

{
  "88:17": {
    "t": "Do the disbelievers not see how rain clouds are formed <sup foot_note=\"77646\">1</sup>",
    "f": {
      "77646": "The word ibl can mean 'camel' as well as 'rain cloud'..."
    }
  }
}

2. Inline Footnote Format

Footnotes are inserted directly using double square brackets e.g([[this is footnote]])

{
  "88:17": "Do the disbelievers not see how rain clouds are formed [[The word ibl can mean 'camel' as well as 'rain cloud'...]]"
}

3. Text Chunks Format

In chunks export format, text is divided into chunks. Each chunk could be a simple text or an object. Object can be either footnote or a formatting tag. This format is useful for applications can't directly render the HTML tags. Here is an example of Bridges` translation for Surah An-Nas , Ayah 6:

Above translation will be exported in chunks as:

<i class="s">(from the whisperers)</i>among the race of unseen beings<sup foot_note="81506">1</sup>and mankind.”

      [
      {"type":"i","text":"(from the whisperers)"}, // first chunk, should be formatted as italic
      "among the race of unseen beings", //second chunk in simple text
      {"type":"f","f":"81506","text":"1"}, // third chunk is a footnote,
      "and mankind.”"
      ]