You are reading tafsir of 17 ayahs: 70:19
to 70:35.
بلاشبہ انسان پیدا کیا گیا تھڑدلا(19) جب پہنچتی ہے اسے برائی، تو بہت جزع فزع کرتا ہے (20) اور جب پہنچتی ہے اسے بھلائی تو نہایت بخیل ہے (21) مگر وہ نمازی (22) جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں (23) اور وہ لوگ کہ ان کے مالوں میں حق ہے مقرر (24) سوالی اور محروم کے لیے (25) اور وہ لوگ جو تصدیق کرتے ہیں یوم جزا کی (26) اور وہ لوگ کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں (27) بلاشبہ عذاب ان کے رب کا (ایسا) ہے کہ نہ بے خوف ہوا جائے(اس سے)(28) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں(29) مگر اپنی بیویوں سے اور جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ، تو بلاشبہ وہ نہیں ملامت زدہ (30) پس جو کوئی تلاش کرے علاوہ اس کے تو وہی لوگ ہیں حد سے گزرنے والے (31) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں (32) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی شہادتوں پر قائم رہنے والے ہیں (33) اور وہ لوگ کہ وہ اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں (34) یہی لوگ باغوں میں معزز ہوں گے (35)
[21,19] یہ انسان کا وصف ہے جیسا کہ وہ ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت بیان کی ہے کہ وہ انتہائی بے صبرا ہے، پھر ’’بے صبرے‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:﴿ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا﴾ پس اگر کبھی اس پر فقر یا کسی مرض کا حملہ ہوتا ہے یا مال و متاع، گھر والوں اور اولاد میں سے کوئی محبوب چلا جاتا ہے تو وہ انتہائی بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، اس بارے میں صبر کو استعمال نہیں کرتا اور نہ اللہ تعالیٰ کی قضا پر ہی راضی ہوتا ہے۔ ﴿ وَّاِذَا مَسَّهُ الۡخَيۡرُ مَنُوۡعًا﴾ ’’اورجب اسے آسائش پہنچتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اسے عطا کیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے احسان پر اس کا شکر ادا نہیں کرتا۔ پس وہ مصیبت اور سختی کے وقت بے صبری کرتا ہے اور فراخی اور خوشحالی کے وقت مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روکتا ہے۔
[23,22]﴿ اِلَّا الۡمُصَلِّيۡنَ﴾ سوائے ان نمازیوں کے جو ان اوصاف سے موصوف ہیں، کیونکہ جب ان کو بھلائی حاصل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اس کے راستے میں وہ مال خرچ کرتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ مند کیا ہے، جب انھیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ ان کے وصف میں فرمایا:﴿ الَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَاتِهِمۡ دَآىِٕمُوۡنَ﴾ یعنی نماز پر، اس کی تمام شرائط اور اس کی تکمیل کرنے والے دیگر امور کے ساتھ اس کے اوقات میں ہمیشگی کرتے ہیں۔ وہ اس شخص کی مانند نہیں ہیں جو نماز نہیں پڑھتا یا جو بے وقت پڑھتا ہے یا وہ نماز پڑھتا ہے مگر ناقص طریقے سے۔
[25,24]﴿ وَالَّذِيۡنَ فِيۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ﴾ ’’اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے۔‘‘ یعنی زکاۃ اور صدقات میں سے ﴿ لِّلسَّآىِٕلِ﴾ ’’سائل کے لیے۔‘‘ جو سوال کرتا ہے ﴿ وَالۡمَحۡرُوۡمِ﴾ ’’اور محروم کے لیے۔‘‘ یہ وہ مسکین ہے جو لوگوں سے سوال نہیں کرتا کہ لوگ اسے عطا کریں اور نہ اس کے حاجت مند ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس پر صدقہ کریں۔
[26]﴿ وَالَّذِيۡنَ يُصَدِّقُوۡنَ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِ﴾ یعنی جزا و سزا اور قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے جو خبر دی ہے، اس پر ایمان رکھتے ہیں اور انھیں اس پر یقین ہے، پس وہ آخرت کے لیے تیاری کرتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح کوشش کرتے ہیں، قیامت کے دن کی تصدیق سے رسولوں اور ان کتابوں کی جن کو لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں، تصدیق لازم آتی ہے۔
[28,27]﴿ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّهِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ﴾ یعنی اپنے رب کے عذاب سے خائف اور ڈرتے ہیں اس لیے وہ ہر اس کام کو چھوڑ دیتے ہیں جو انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے قریب کرتا ہے۔ ﴿ اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمۡ غَيۡرُ مَاۡمُوۡنٍ﴾ ’’بے شک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونےوالی چیز نہیں ہے۔‘‘ یہ وہ عذاب ہے جس سے ڈرا جاتا اور بچا جاتا ہے۔
[31-29]﴿ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰؔفِظُوۡنَ﴾ پس وہ اپنی شرم گاہوں کے ذریعے سے ایسی مجامعت نہیں کرتے جو حرام قرار دی گئی ہو ، یعنی زنا، سدومیت (قوم لوط والا عمل ) ، بیوی کی دبر میں مجامعت اور حالت حیض وغیرہ میں مجامعت سے بچتے ہیں،نیز وہ اپنی شرم گاہوں کو ان لوگوں کے دیکھنے اور چھونے سے حفاظت کرتے ہیں جن کے لیے دیکھنا اور چھونا جائز نہیں۔ وہ ان تمام وسائل محرمہ کو بھی ترک کر دیتے ہیں جو فحش کام کے ارتکاب کی دعوت دیتے ہیں ﴿ اِلَّا عَلٰۤى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ ﴾ ’’مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے۔‘‘ یعنی ان کے پاس جانے میں ﴿ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ﴾’’ان پر کوئی علامت نہیں۔‘‘ یعنی اس مقام میں جماع کرنے پر، جو کھیتی کا مقام ہے، ان پر کوئی ملامت نہیں۔﴿ فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَؔ ذٰلِكَ﴾ پس جو بیوی اور لونڈی کے علاوہ تلاش کریں۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ﴾ ’’تو وہ حد سے نکل جانے والے ہیں۔‘‘ یعنی جو چیز اللہ تعالیٰ نے حلال ٹھہرائی ہے اس سے تجاوز کر کے اس میں پڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ یہ آیت کریمہ نکاحِ متعہ (اورمروجہ حلالہ) کی حرمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ یہ زوجۂ مقصود ہے نہ لونڈی۔
[32]﴿ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِاَمٰنٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رٰعُوۡنَ﴾ یعنی وہ امانتوں اور عہد کی رعایت رکھنے اور حفاظت کرنے والے ہیں، امانتوں کو ادا کرنے اور عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ ان تمام امانتوں کو شامل ہے جو بندے اور اس کے رب کے درمیان ہیں جیسے وہ پوشیدہ امور جن کا انسان مکلف بنایا گیا ہے اورانھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اوروہ امانتیں جواموال اور اسرار کے بارے میں ہیں جو آپس میں بندوں کے مابین ہیں۔اسی طرح یہ عہد اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو اس نے مخلوق سے کیا ہے۔ کیونکہ عہد کے بارے میں بندے سے پوچھا جائے گا کہ آیا وہ اس عہد پر قائم رہا اور اسے پورا کیا یا اس نے اسے دور پھینک دیا، اس میں خیانت کی اور اس پر قائم نہ رہا؟
[33]﴿ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ بِشَهٰؔدٰؔتِهِمۡ قَآىِٕمُوۡنَ﴾ یعنی وہ کسی کمی بیشی اور کچھ چھپائے بغیر صرف اسی بات کی گواہی دیتے ہیں جسے وہ جانتے ہیں، وہ گواہی میں کسی رشتہ کی رعایت رکھتے ہیں نہ کسی دوست وغیرہ کی۔ ان کے نزدیک، اس گواہی کو قائم کرنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَاَقِيۡمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ﴾(الطلاق:65؍2) ’’اللہ تعالیٰ کے لیے گواہی کو قائم کرو۔‘‘ اور فرمایا :﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوّٰمِيۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُهَدَآءَؔ لِلّٰهِ وَلَوۡ عَلٰۤى اَنۡفُسِكُمۡ اَوِ الۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ﴾(النساء:4؍135) ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر قائم رہنے والے بن جاؤ ، اللہ کے لیے گواہی دو، خواہ یہ گواہی خود تمھارے خلاف، تمھارے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
[34]﴿ وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ﴾ ’’اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ یعنی بہترین طریقے سے اس پر مداومت کے ذریعے سے اس کی حفاطت کرتے ہیں۔
[35]﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ یعنی جو لوگ ان صفات سے موصوف ہیں وہ ﴿ فِيۡ جَنّٰتٍ مُّكۡرَمُوۡنَ﴾ ’’جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو اکرام و تکریم اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں سے نوازے گا جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے اور ان کی آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ وہ ان نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل سعادت و خیر کو اوصاف کاملہ، اخلاق فاضلہ سے موصوف کیا ہے، یعنی عبادت بدنیہ ، مثلاً: نماز اور اس پر مداومت۔ اعمال قلبیہ ، مثلاً: خشیت الٰہی جو ہر بھلائی کو دعوت دیتی ہے، عبادات مالیہ، عقائد نافعہ، اخلاق فاضلہ، اللہ تعالیٰ سے معاملہ، اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بہترین معاملہ، یعنی ان کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق اور ان کی امانتوں کی حفاظت کرنا ایسے افعال سے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کر کے عفت کامل اختیار کرنا۔