You are reading tafsir of 7 ayahs: 74:1
to 74:7.
اے لپٹنے والے کپڑے میں!(1) اٹھیے، پھر ڈرائیے(2) اور اپنے رب ہی کی پس بڑائی بیان کیجیے(3) اور اپنے کپڑے پس پاک رکھیے(4) اور پلیدی کو پس چھوڑ دیجیے(5) اور نہ احسان کیجیے زیادہ طلب کرنے کے لیے(6) اور اپنے رب کے لیے پس صبر کیجیے(7) پس جب پھونکا جائے گا صور میں(8) تو وہ اس دن، دن ہو گا سخت دشوار (9) کافروں پر، نہیں آسان (10) چھوڑ دیجیے مجھے اور اسے جسے میں نے پیدا کیا اکیلا ہی (11)
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
[2,1] گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ ﴿الۡمُزَّمِّلُ﴾ اور ﴿الۡمُدَّثِّرُ﴾کا ایک ہی معنی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہﷺ کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی عبادات قاصرہ اور متعدیہ میں پوری کوشش کریں۔ وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبادات فاضلہ و قاصرہ اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کوحکم دیا کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان فرما دیں اور کھلم کھلا لوگوں کو تنبیہ کریں، چنانچہ فرمایا:﴿قُمۡ﴾ یعنی کوشش اور نشاط کے ساتھ کھڑے ہوں ﴿ فَاَنۡذِرۡ﴾ یعنی لوگوں کو ایسے اقوال و افعال کے ذریعے سے تنبیہ کیجیے ، جن سے مقصد حاصل ہو، ان امور کا حال بیان کر کے ڈرائیے جن سے متنبہ کرنا مطلوب ہے تاکہ یہ اس کو ترک کرنے پر زیادہ آمادہ کرے۔
[3]﴿وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡ﴾ یعنی توحید کے ذریعے سے اس کی عظمت بیان کیجیے، اپنے انذار و تنبیہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصد بنائیں، نیز اس بات کو مدنظر رکھیں کہ بندے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی عبادت کریں۔
[4]﴿وَثِيَابَكَ فَطَهِّرۡ﴾ ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال ہے کہ (ثِیَاب) ’’کپڑے‘‘ سے مراد تمام اعمال ہوں اور ان کی تطہیر سے مراد ہے ان کی تخلیص، ان کے ذریعے سے خیر خواہی، ان کو کامل ترین طریقے پر بجا لانا اور ان کو تمام مبطلات، مفسدات اور ان میں نقص پیدا کرنے والے امور ، یعنی شرک، ریا، نفاق، خود پسندی، تکبر، غفلت وغیرہ سے پاک کرنا، جن کے بارے میں بندۂ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی عبادات میں ان سے اجتناب کرے۔ اس میں کپڑوں کی نجاست سے تطہیر بھی داخل ہے کیونکہ یہ تطہیر اعمال کی تطہیر کی تکمیل ہے، خاص طور پر نماز کے اندر جس کے بارے میں بہت سے علماء کا قول ہے کہ نجاست کو زائل کرنا، نماز کا حق اور اس کی شرائط میں سے ایک شرط ہے، یعنی طہارت اس کی صحت کی شرائط میں سے ہے۔یہ بھی احتمال ہے کہ(ثِیَاب) سے مراد معروف لباس ہو اور آپ کو ان کپڑوں کی تمام اوقات میں تمام نجاستوں سے تطہیر کا حکم دیا گیا ہے، خاص طور پر نماز میں داخل ہوتے وقت۔
[5] جب آپ ظاہری طہارت پر مامور ہیں کیونکہ ظاہری طہارت، باطنی طہارت کی تکمیل کرتی ہے تو فرمایا:﴿وَالرُّجۡزَ فَاهۡجُرۡ﴾ ’’اور ناپاکی سے دور رہیں۔‘‘ ایک احتمال یہ ہے کہ (الرُّجْزَ) سے مراد بت اور مورتی ہوں، جن کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کو ترک کر دیں، ان سے براء ت کا اعلان کریں، نیز ان تمام اقوال و افعال سے بیزار ہوں جو ان کی طرف منسوب ہیں۔ایک احتمال یہ بھی ہے کہ (اَلرُّجْزَ)سے مراد تمام اعمال شر اور اقوال شر ہوں، تب آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ تمام چھوٹے اور بڑے، ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دیں۔ اس حکم میں شرک اور اس سے کم تر تمام گناہ داخل ہیں۔
[6]﴿وَلَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَكۡثِرُ﴾ یعنی آپ نے لوگوں پر جو دینی اور دنیاوی احسانات کیے ہیں، انھیں جتلائیں نہیں کہ اس احسان کے بدلے زیادہ حاصل کریں اور ان احسانات کی وجہ سے اپنے آپ کو لوگوں سے افضل سمجھیں بلکہ جب بھی آپ کے لیے ممکن ہو آپ لوگوں پر احسان کریں ، پھر ان پر اپنے اس احسان کو بھول جایے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کیجیے۔ جس پر آپ نے احسان کیا ہے اسے اور دوسروں کو برابر سطح پر رکھیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی کو کوئی چیز اس لیے عطا نہ کریں کہ آپ کا ارادہ ہو کہ وہ آپ کو اس سے بڑھ کر بدلہ عطا کرے، تب یہ نبی ٔاکرمﷺ کے ساتھ مختص ہے۔
[7]﴿وَلِرَبِّكَ فَاصۡبِرۡ﴾ یعنی اپنے صبر پر اجر کی امید رکھیے اور اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ پس رسول اللہ ﷺنے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اور اس کی تعمیل کے لیے آگے بڑھے۔ پس آپ نے لوگوں کو انجام بد سے ڈرایا اور آپ نے ان کے سامنے آیات بینات اور تمام مطالب الٰہیہ کو واضح کیا، اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی اور مخلوق کو اس کی تعظیم کی طرف بلایا، آپ نے اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ہر قسم کی برائی سے پاک کیا، آپ نے ہر اس ہستی سے براءت کا اظہار کیا جو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی تھی اور اس کی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ عبادت کی جاتی تھی، یعنی بتوں، بت پرستوں، شر اور شر پسندوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔لوگوں پر اللہ تعالیٰ کے احسان کے بعد آپ کا احسان ہے بغیر اس کے کہ آپ اس پر ان سے کسی جزا یا شکر گزاری کا مطالبہ کریں۔ آپ نے اپنے رب کی خاطر کامل ترین صبر کیا۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی نافرمانی سے اجتناب پر اور اس کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کیا، یہاں تک کہ آپ اولوالعزم انبیاء و مرسلین پر بھی فوقیت لے گئے۔ صَلَوَاتُ اللہِ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ أَجْمَعِینَ ۔