وانہ ........................ لبدا
” یعنی سب جمع ہوکر اور جتھا بنا کر اس وقت اس پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار ہوگئے جب وہ اللہ کو پکارنے کے لئے یعنی اللہ کے سامنے نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا۔ نماز یعنی صلوة کے معنی دعا کے ہیں۔ صلوة کے اصلی معنی ہی دعا کے ہیں۔ اگر یہ آیت جنوں کا قول ہو تو اللہ کی جانب سے ان کی بات کی حکایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوتے اور تلاوت کرتے تو مشرکین مکہ آپ کے ارد گرد جمع ہوجاتے جیسا کہ سورة المعارج میں ہے۔
فمال .................... عزین (73) (07 : 63۔ 73) ” پس اے نبی کیا بات ہے ، کہ یہ منکر دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آتے ہیں “۔ اور نہایت حیرانی سے قرآن سنتے ہیں اور قبول نہیں کرتے۔ یا وہ ادھر ادھر سے آپ پر حملہ آور ہونے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ لیکن اللہ آپ کو ان سے بچاتا ہے اور ایسے مواقع بارہا پیش آئے۔ اگر یہ جنوں کا قول ہے تو وہ اپنی قوم کے سامنے مشرکین مکہ کے رویہ پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں اور اگر ابتداء ہی سے کلام الٰہی ہے کلام سنتے ہیں ، تعجب کرتے ہیں اور یہ رسول اللہ کے ارد گرد اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح اونی کپڑے کے بنے ہوئے بال ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ مفہوم اس تعجب ، حیرانی اور دہشت کے زیادہ مناسب ہے جو جنات کے پورے کلام کے دوران موجود رہی ہے۔ کیونکہ جنات کا پوراکلام درحقیقت اظہار تعجب اور اچھنبے کا نمونہ ہے۔ واللہ اعلم !
اسلامی دعوت اور قرآن کے کلام کے بارے میں جب جنوں کا کلام یہاں آکر ختم ہوتا ہے ، جس میں جنوں نے اپنے تعجب کا اظہار کیا ، جس میں ان کے شعور اور ان کی سوچ میں ارتعاش پیدا ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ ارض وسما اور جنات وفرشتے اور ستارے اور سیارے سب کے سب اس عظیم دعوت اور اس عظیم کلام کے حوالے سے متحرک ہیں۔ کائنات کا یہ عظیم نظام بھی اس کی وجہ سے متاثر ہوگیا ہے اور یہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ تحریک ہے۔ تو اس کے ساتھ ہی روئے سخن اب نبی ﷺ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کہ نہایت ہی دو ٹوک ، فیصلہ کن اور اٹل ہدایات دی جاتی ہیں کہ آپ تبلیغ کے لئے خالص ہوجائیں اور یہ کہہ دیں کہ میں کسی کے نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں۔ نہ میں غیب دانی کا مدعی ہوں ، نہ میں لوگوں کی تقدیر بدل سکتا ہوں۔ یہ بات نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ اور شکایت کا انداز میں کی جاتی ہے۔ نہایت سختی اور فیصلہ کن انداز میں :