(4) یہ ہدایت بھی آپ کو دی جاتی ہے کہ نبوت کے کام سے اپنے ذاتی مفادات کو دور رکھیں اور آپ جو عظیم کام کررہے ہیں اس پر احسان نہ جتلائیں۔
ولا تمنن تستکثر (74:6) ” اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لئے “۔ حضور اکرم ﷺ نے دعوت کی زندگی میں بہت کچھ صرف کرنا تھا ، اپنی پوری مادی اور اخلاقی اور جسمانی قوت اس راہ میں صرف کرنی تھی اور قربانیاں دینی تھیں لیکن رب تعالیٰ کا مطالبہ آپ سے یہ تھا کہ اس عظیم جدوجہد کو عظیم نہ سمجھیں اور کسی پر احسان نہ جتلائیں۔ دعوت اسلامی کی راہ میں اگر کسی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے کہ میں نے بہت کچھ کیا ہے تو وہ ہرگز داعی نہیں رہ سکتا۔ اس راہ میں جدوجہد اس وقت عظمت کا رنگ لیتی ہے ، جس اسے بھلا دیا جائے ، بلکہ نفس انسانی کے اندر یہ شعور اچھی طرح بیٹھ جائے کہ اس راہ میں جو کچھ صرف ہورہا ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے ہمیں اس مقصد کے لئے چنا ، توفیق دی اور وسائل دیئے اور ہم اس کے اہل ہوئے۔ بس یہ اللہ کا کرم ، اس کا چناﺅ اور اس کی تکریم ہے اور عزت افزائی ہے جو اس نے ہمیں اس کام کے لئے توفیق دی۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اللہ کے اس دین پر اس کا شکر ادا کریں نہ یہ کہ ، کسی پر احسان جتلائیں۔