یہ رکوع صرف ایک آیت پر مشتمل ہے۔ اس آیت کے زمانہ نزول کے بارے میں جو روایات ملتی ہیں ان میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے۔ کوئی روایت بتاتی ہے کہ یہ آیت اس سورت کے پہلے حصے کے نزول کے آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی اور اس سے قیام اللیل کا پہلا حکم منسوخ ہوگیا۔ کچھ روایات میں یہ مدت ایک سال اور کچھ میں 16 ماہ بتائی گئی ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور پہلی آیات کے گیارہ سال بعد نازل ہوئی۔ اس آیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق روایات میں پائے جانے والے غیر معمولی اختلاف کی وجہ جاننے کے لیے میں ایک عرصہ تک پریشان رہا۔ اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی تفسیر سے بھی مجھے کوئی واضح راہنمائی نہ مل سکی۔ پھر کسی زمانے میں علامہ جلال الدین سیوطی رح کی کتاب ”الاتقان فی علوم القرآن“ کا مطالعہ کرتے ہوئے اتفاقاً مجھے اس بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس - کا یہ قول مل گیا کہ یہ ایک نہیں دو آیات ہیں۔ چناچہ اس قول کی روشنی میں اس نکتے پر میرا دل مطمئن ہوگیا کہ اس کلام کا نزول تو دو حصوں میں ‘ دو الگ الگ مواقع پر ہوا ‘ لیکن حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اسے ایک آیت شمار کیا گیا۔آیت 20{ اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ } ”اے نبی ﷺ ! یقینا آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ قیام کرتے ہیں کبھی دو تہائی رات کے قریب ‘ کبھی نصف رات اور کبھی ایک تہائی رات“ { وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ } ”اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں ان میں سے بھی ایک جماعت آپ کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔“ { وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَط } ”اور اللہ ہی رات اور دن کا اندازہ کرتا ہے۔“ رات دن کے اوقات بھی اللہ نے بنائے ہیں اور انسانوں کو بھی اسی نے پیدا کیا ہے ‘ اس لیے وہ اپنے بندوں کی استعداد سے خوب واقف ہے۔ { عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ } ”اللہ جانتا ہے کہ تم اس کی پابندی نہیں کرسکو گے“ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس انداز سے یہ مشقت زیادہ عرصے تک نہیں جھیلی جاسکتی۔ { فَتَابَ عَلَیْکُمْ } ”تو اس نے تم پر مہربانی فرمائی ہے“ { فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ } ”تو اب قرآن سے جتنا بآسانی پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔“ حضرت عبداللہ بن عباس رض کے مذکورہ قول کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ اس آیت کا یہ حصہ پہلی آیات کے گیارہ ماہ یا ایک سال بعد نازل ہوا۔ اس حکم کے ذریعے دو تہائی یا نصف یا ایک تہائی رات تک قیام کرنے کی پابندی ختم کردی گئی اور یہ سہولت دے دی گئی کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق قیام اللیل میں جتنا ممکن ہو اتنا قرآن پڑھ لیا کرے۔ البتہ آیت کا دوسرا درج ذیل حصہ جس میں قتال کا ذکر ہے ‘ اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہجرت سے متصلاً قبل یا ہجرت کے متصلاً بعدنازل ہوا۔ چناچہ گیارہ سال کے وقفے والی روایت اس حصے سے متعلق ہے۔ { عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰیلا } ”اللہ کے علم میں ہے کہ تم میں کچھ لوگ مریض ہوں گے“ { وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَـبْـتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ } ”اور بعض دوسرے زمین میں سفر کریں گے اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہوں گے“ { وَاٰخَرُوْنَ یُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ } ”اور کچھ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہوں گے“ اب ظاہر ہے ایسے لوگوں کے لیے رات کو طویل قیام کرنا ممکن نہیں۔ { فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُلا } ”چناچہ جس قدر تمہارے لیے آسان ہو ‘ اس میں سے پڑھ لیا کرو“ { وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ } ”اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو“ اب اس حکم میں نماز پنجگانہ کی تاکید ہے اور نماز پنجگانہ ظاہر ہے 10 نبوی میں معراج کے موقع پر فرض ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے بھی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ آیت کا یہ حصہ 10 نبوی کے بعد ہجرت سے پہلے یا ہجرت کے فوراً بعد نازل ہوا۔ اس حکم میں پانچ نمازوں کو قیام اللیل کا بدل قرار دے دیا گیا ‘ البتہ رمضان میں قیام اللیل کا معاملہ اس سے مستثنیٰ رہا۔ رمضان چونکہ نزول قرآن کا مہینہ ہے : { شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ } البقرۃ : 185 ”رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا“ چناچہ قرآن سے تعلق کی تجدید کے لیے اس مہینے میں قیام اللیل کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رض نے رمضان کی آمد پر حضور ﷺ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے ‘ جس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَـــہٗ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا 1 ”اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے یعنی نماز تراویح پڑھنے کو نفل عبادت مقرر کیا ہے جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے“۔ یعنی رمضان کے روزے تو اہل ایمان پر فرض کردیے گئے کہ اہل ثروت ‘ نادار ‘ مزدور ‘ کسان وغیرہ سبھی روزہ رکھیں اور بھوک پیاس کی سختیاں برداشت کرنے کے عادی بن کر خود کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار رکھیں۔ جبکہ رمضان کی راتوں کے قیام کے لیے اختیار دے دیا گیا کہ جو کوئی اس کا اہتمام کرسکتا ہو وہ ضرور اس کی برکتوں سے مستفیض ہو۔ بعد میں خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رض کے دور خلافت میں اسے اجتماعی شکل دے دی گی۔ چناچہ اجتماعی قیام اللیل کا وہ سلسلہ جس کا اہتمام ہمارے ہاں باجماعت تراویح کی صورت میں ہوتا ہے حضرت عمر رض کی وساطت سے امت تک پہنچا ہے۔ یہ دراصل قیام اللیل کا ”عوامی“ پروگرام ہے اور اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیام اللیل کی برکتوں سے کوئی شخص بھی محروم نہ رہنے پائے۔ قرونِ اولیٰ کے مخصوص ماحول اور حالات میں اس باجماعت قیام اللیل کی افادیت بہت زیادہ تھی۔ قرآن مجید کی زبان چونکہ ان لوگوں کی اپنی زبان تھی اس لیے امام کی زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کے مصداق تمام سامعین کے دلوں میں اترتا چلا جاتا تھا ‘ لیکن آج ہمارے ہاں کی تراویح کے اکثر و بیشتر مقتدی تو ”زبانِ یارِ من ترکی ومن ترکی نمی دانم“ کی تصویر بنے سارا وقت رکعتوں کے حساب میں مشغول رہتے ہیں اِلا ماشاء اللہ۔ چناچہ اس عظیم الشان فورم پر بھی اب قرآن کا سننا بس سننے کی حد تک ہی ہے اور تفہیم و تذکیر کے حوالے سے اس استماع کی افادیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ { وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًاط } ”اور اللہ کو قرض حسنہ دو۔“ { وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًاط } ”اور جو بھلائی بھی تم آگے بھیجو گے اپنی جانوں کے لیے ‘ اسے موجود پائو گے اللہ کے پاس بہتر اور اجر میں بڑھ کر۔“ جو نیک اعمال تم نے آگے بھیجے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ کے پاس تم بہت ہی بہتر حالت میں پائو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو نہ صرف سات سو گنا تک بڑھا کر تمہیں لوٹائے گا بلکہ اپنے فضل ِخاص سے اس کے بدلے خصوصی اجر بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔ { وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ } ”اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہو۔“ { اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا ‘ رحمت فرمانے والا ہے۔“صحیح البخاری ‘ کتاب صلاۃ التراویح ‘ باب فضل لیلۃ القدر۔ و صحیح مسلم ‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا ‘ باب فی قیام رمضان وھو التراویح۔